The only thing that man can call his own in this world is the house that his hard work and It is formed by attitudes, if there is peace in the house, then that house is heaven in this world and if there is trouble and problem in this house, then hell is seen in this world.
A house is built by a man and a woman together with love and hard work. If a man builds a house and builds it, then a woman makes this house a home with moral character and relationships. He starts looking for employment and the woman takes care of this house 24 hours a day.
The Holy Qur'an has called man and woman husband and wife as each other's clothes, meaning to keep each other's secrets and to help each other. It should not happen and the matter of the home should never be outside the home and the situation outside the home should not affect the home.
A woman builds the system of the house in which every relationship is respected, respects the man and educates the children in the best principles of Islam, and when her children grow up, she has a dream to get this child married. He starts looking for the girl he likes for his child.
Where does the mistake begin, when a boy marries a girl of his choice who has given all her conditions to the boy, now a woman in a house, a mother who has invested her life in making this house a home and its rules. In making the second wife who has come with a promise to live her own life, when both of them meet, the mother says my will will be done and the wife says my will will be done, but in our society all the mothers who are breathing He proves wrong and the wife who is a daughter-in-law has something to think about. Only one sentence is spoken: she has left her home. She has been swept away from this house, no effort or time has been spent on this house, but in the house she has come to, she is eager to become the mistress of this house without any effort or doing anything. The breath that has spent its entire life, seeing the house and the children go away and the rules of the house built by her are blown away, then that mother dies inside, then she breathes and speaks. She keeps silent and counts the hours of her death, both of them feel sad, but an educated son cannot understand his mother, he also says the same thing. I think the world has changed.
What has changed today in this world, relationships are going on the same, only the number of divorces is increasing day by day. Look at the movie, look at the drama, look at the internet, everyone talks against Sans and speaks more towards the daughter-in-law that she is a bachari. Why is the daughter-in-law like this?
The enemy of Islam has never slept after Islam became common, and has been plotting all the time, which has been going on until today. But I should write, but now we are talking about the woman living in Pakistan, for whom the British gave millions of rupees for the education and development of the woman, in which there is no mistake, but only the daughter-in-law is the oppressed woman. Mother why not, sister why oppression, dramas have confused our thinking, we can't see anything even while watching.
There is still time, Islam has not left our breasts, we can still change a lot, just by understanding their tricks and using our minds.
------------------------------ *Urdu*--------------------------
انسان اس دنیا میں جس چیز کو اپنا کہ سکتا ہے وہ ہے گھر جو اس کی محنت اور
رویوں کی وجھ سے بن کر تیار ہوتا ہے، گھر میں اگر سکون ہے تو وہ گھر جنت ہے اس دنیا میں اور اگر اس گھر میں پریشانی اور مسئلے ہے تو اس دنیا میں ہی جہنم کا دیدار ہوجاتا ہے۔
یے گھر ایک مرد اور ایک عورت کی ساتھ مل کر محبت اور محنت سے بنتا ہے اگر مرد گھر کی تعمیر کر کے بناتا ہے تو عورت اخلاق کردار اور رشتو سے اس گھر کو گھر بناتی ہے کیو کے مرد اس کو ایک دفا تعمیر کر کے پھر روزگار کی تلاش میں لگ جاتا ہے اور عورت 24 گھنٹے اس گھر کا خیال رکھتی ہے۔
قرآن پاک نے مرد عورت میاں اور بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے مطلب ایک دوسرے کے رازدار اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے، ایک کامیاب میاں بیوی کا ہماری نظر میں رشتا ایسے بنتا ہے کے کمرے کے اندر کی بات کبھی گھر میں نہیں ہونی چاہیے اور گھر کی بات کبھی گھر سے باہر نہیں ہونی چاہیے اور گھر سے باہر جو حالات ہے اس کا اثر گھر کے اندر نہیں پڑنا چاہیے۔
ایک عورت اس گھر کا نظام بناتی ہے جس میں ہر رشتے کا احترام مرد کی عزت اور اولاد کی ایک بہترین اسلام کے اصولوں پر تربیت کرتی ہے اور جب اس کی اولاد بڑی ہوجاتی ہے تو اس کا خواب ہوتا ہے کے اس بچے کی شادی کروائے وہ اس تلاش میں لگ جاتی ہے، اپنوں میں غیروں میں جو اس کو اچھی لگتی ہے وہ لڑکی پسند کرتی ہے اپنے بچے کی خوشی کے لئے
غلطی کہاں سے شروع ہوتی ہے, جب لڑکا اپنی پسند کی لڑکی جو اپنی تمام شرتین اس لڑکے سے منوا کے اس کے بعد شادی کرتی ہے اب ایک گھر میں ایک عورت ماں جس نے اپنی عمر لگادی اس گھر کو گھر بنانے میں اور اس کے اصول بنانے میں دوسری بیوی جو اپنی مرضی کی زندگی گذارنے کا وعدہ لیکر آئی ہے دونوں میں جب سامنا ہوتا ہے تو ماں کہتی ہے میری مرضی چلے گی اور بیوی کہتی ہے میری مرضی چلے گی، لیکن ہمارے معاشرے میں سب ماں جو سانس ہے اس کو ہی غلط ثابت کرتے ہے اور بیوی جو بہو ہے اس کی کسی بات پر غور ہیں ہوتا ہے صرف "ایک جملا بولا جاتا ہے وہ اپنا گھر چھوڑ کر آئی ہے" جو گھر وہ چھوڑ کر آئی ہے اس کو بنانے والوں نے اپنی خوشی سے اس کو اس گھر سے بہا کے نکالا ہے اس گھر پر اس لڑکی کی کوئی محنت یا وقت نہیں لگا ہے لیکن جس گھر میں وہ آئی ہے وہ اس گھر کی بغیر محنت اور کچھ کرنے کے مالکن بننے کا شوق ہوتا ہے اپنے اصولاں پر رہتے ہوئے پھر کیا سانس جس نے اپنی پوری عمر لگادی اس گھر اور بچوں کو دورجاتا دیکھ کر اور اس کے بنائے ہوئے گھر کے اصولوں کی دھچیا اڑائی جاتی ہے تو وہ اندر ہی اندر وہ ماں مرجاتی ہے پھر کچھ سانس زبان رکھتی ہے وہ بولتی ہے اور جو زبان نہیں رکھتی وہ خاموش ہوکر اپنے موت کی گھڑیا گنتی رہتی ہے، کیو کے دکھ تو دونوں کو ہوتا ہے لیکن پڑھا لکھا بیٹا اپنے ماں کو نہیں سمجھ سکتا وہ بھی یہی کہتا مان تو۔ ہیں سمجھتی اب دنیا بدل چکی ہے۔
کیا بدلا ہے آج اس دنیا میں آج تک رشتے وہی چلتے آرہے ہے صرف طلاق کی تعداد دن بہ دن بڑتی چلی جا رہی ہے۔ فلم دیکھو، ڈراما دیکھو، انٹرنیٹ دیکھو سب سانس کے خلاف بات کرتے اور بہو کی طرف زیادہ بولتے ہے کے وہ بچاری ہے، اب یہ دیکھنا ہے کے 1990 سے پہلے بھی سانس اور بہو ہوتی تھی یے اچانک 1990 کے بعد سانس ظالم بن گئی اور بہو بچاری ایسا کیو۔
اسلام کا دشمن اسلام عام ہونے کے بعد کبھی نہیں سویا ہر وقت سازش کرتا رہا جو آج تک چلتی آرہی ہے اس نے عورت کو تعلیم اس کے بعد کمانے اور گھر سے نکلنے کا پورا پروگرام بناکے دیا اور یورپ کو پورا ہمارے سامنے مثال بنا دیا اس پر بھی میں لکھوں کا لیکن ابھی بات ہورہی ہے پاکستان میں رہنے والی عورت کی جس کے لئے انگریز نے کروڑوں روپیہ دیا عورت کی تعلیم اور ترقی کے لئے جس میں ویسے تو کوئی غلطی نہیں ہے لیکن یے صرف اور صرف بہو ہی مظلوم عورت ہے کیو ماں کیو نہیں بہن کیو ظلوم نہیں ڈراموں نے ہمارے سوچ سمجھ کو ہی الجھا دیا ہے ہم دیکھتے ہوئے بھی کچھ دیکھ نہیں پاتے۔
اب بھی وقت ہے اسلام ہمارے سینو سے نکلا نہیں ہے، اب بھی ہم بہت کچھ بدل سکتے ہے، صرف ان کی چال کو سمجھ نا اور اپنے دماغ کو استعمال کرکے۔
No comments:
Post a Comment